طبی ماہرین نے سیلاب کے بعد ایک اور سانحے سے خبردار کردیا اور کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نا صرف وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں بلکہ ہیضہ، اسہال، گیسٹرو، ٹائیفائیڈ، ڈینگی، ملیریا، جلدی اور نفسیاتی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے، ان بیماریوں سے اموات بھی ہوسکتی ہیں، سیلاب سے محفوظ رہ جانیوالے شہریوں میں بھی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ہوتا ہے۔
گرین ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے بتایا کہ سیلاب متاثرین میں مختلف قسم کی متعدی بیماریاں بہت آسانی سے پھیل سکتی ہیں، عام طور پر جو بیماری سب سے زیادہ پھیلتی ہے ان میں ہیضہ اور ڈائریا عام ہیں، پانی جمع ہونے سے ملیریا اور ڈینگی بہت عام ہوجاتا ہے، اسی طرح مکھیوں سے پھیلنے والی بیماریاں بھی بہت ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو تین مختلف وجوہات ہیں جس کی وجہ سے یہ وبائی امراض پھوٹتے ہیں، صرف سیلاب ہی نہیں مون سون کے بعد بھی ان متعدی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے، ایک تو شہروں میں پانی جمع ہوتا ہے اور اس میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہوجاتا ہے اور پھر مکھیوں، مچھروں کے ذریعے اور براہ راست بھی یہ بیماریاں انسانوں میں منتقل ہوتی ہیںڈاکٹر رانا جواد اصغر کا کہنا تھا کہ سیلاب کے نتیجے میں مکان گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ سے ہڈیاں ٹوٹنے اور زخمی ہونے کے کیسز بھی ہوتے ہیں، سیلاب کے بعد سانپ کے کاٹنے کے کیسز بھی بڑھ جاتے ہیں، پینے کے پانی میں سیوریج کا پانی ملنے سے پیٹ کی بیماریاں پھیلتی ہیں، یہ بیماریاں صرف سیلاب ہی کے نتیجے میں نہیں ہوتیں بلکہ جس شہر میں پینے کے پانی میں سیوریج ملا پانی گھروں کے نلکوں میں آتا ہے وہاں یہ بیماریاں عام ہوتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ موسم برسات کے ان دو مہینوں میں ڈاکٹروں کے پاس متعدی امراض کے سب سے زیادہ مریض آتے ہیں، ان سے بچنے کیئے کھانے پینے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موسم کی سختی سے بچنے کیلئے خیمے، کپڑے، صاف پانی اور کھانے کی اشیاء فراہم کی جانی چاہئیں۔